Orhan

Add To collaction

آتشِ عشق

آتشِ عشق از سیدہ قسط نمبر12

روحان اور آزار کی دن رات کی محنت سے وہ لوگ کیس جیت گئے تھے آغا جان اور نواب صاحب کو عمر قید ہوگئی تھی۔۔۔۔ بہت شکریہ اپکا۔۔۔۔روحان نے آزار کا شکریہ ادا کیا۔۔۔ اس میں شکریہ کی کوئی بات نہیں ہے روحان یہ میرے بھائی کے لئے بھی انصاف تھا۔۔ لیکن کسی بھی سماعت میں ورقہ کیوں نہیں آیا۔۔۔؟ ورقہ۔۔۔اسنے حفصہ کے جانے کے بعد خود کو ایک خول میں بند کر لیا ہے نا کسی سے ملتا ہے نا بات کرتا ہے بس سارا دن روم میں اپنے خاموش بیٹھا رہتا ہے۔۔۔۔۔راتوں کو سوتا نہیں ہے۔۔۔۔بس اسکی آنکھوں میں ہر وقت وہی منظر گھومتا رہتا ہے۔۔۔۔۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے کے میری بہن کو اتنا پیار کرنے والا شخص ملا تھا لیکن بدقسمتی سے بس ساتھ نہیں ملا۔۔۔۔میں دعا کرو گا کے ورقہ زندگی کے جانب واپس لوٹ آے۔۔۔۔۔ بہت شکریہ۔۔۔۔دونوں کوٹ کے باہر کھڑے بتائیں کر رہے تھے چلی اب واپسی کا وقت ہے۔۔۔۔إنشاءاللّه زندگی رہی تو پھر ملتے ہیں۔۔۔۔دونوں ایک دوسرے کو خدا حافظ کہہ کر اپنے راستے چل دیے۔۔۔۔ روحان ڈرائیو کر رہا تھا آنکھوں سے آنسوں گر رہے تھے۔۔۔مور۔۔۔حفصہ۔۔۔۔آپ کو لوگوں کو انصاف مل گیا۔۔۔۔میں نے کہا تھا نا میں چھوڑو گا نہیں جن لوگوں نے آپ کے ساتھ یہ سب کیا۔۔۔۔مالک تیرا بہت شکر ہے۔۔۔۔روحان خوش تھا کے وہ اپنا وعدہ پورا کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔۔۔۔اس نے یہ بھی سوچ لیا تھا کے زہرہ نے جس طرح کہا تھا وہ وہی کرے گا وہ اب مزید انابیہ کے ساتھ یہاں نہیں رہ سکتا تھا۔۔۔۔۔ روحان جیسے ہی گھر میں داخل ہوا تو دیکھا جمیل چچی اور دادی انابیہ کے کمرے کے باہر کھڑے زور زور سے دروازہ پیٹ رہے تھے۔۔۔۔ باہر آجا تو منحوس میں دیکھاتا ہوں اس روحان کو اب۔۔۔۔جمیل ساتھ گندی گلیاں بھی دے رہا تھا جمیل دفع ہو یہاں سے۔۔۔۔روحان بھاگتے ہوۓ آیا اور جمیل کو زور سے دھکا دیا۔۔۔۔ ہاں آگیا اپنی محبوبہ کو بچانے۔۔۔۔جمیل اپنے حواس میں نہیں تھا۔۔۔نواب صاحب اور آغا جان کا بدلہ لینے کے دھن میں پاگل ہوگیا تھا بکواس مت کر جمیل ار دفع ہو جا۔۔۔۔اور آپ لوگو شرم آنی چاہیے ایک عورت ہو کر آپ لوگ اسکی بکواس سن رہیں ہے انابیہ کے بارے میں۔۔۔۔۔ نہیں ہےشرم۔۔۔بس تجھے بہت آگئی اپنے دادا اور چچا کو جیل بھجتے ہوۓ۔۔۔دادی نے چیختے ہوۓ کہا انکو اپنے کیے کی سزا ملی ہے۔۔۔۔اور کچھ نہیں اب یہاں سے چلیں جائیں۔۔۔۔ نہیں جاؤ گا میں یہاں سے انابیہ کو باہر آنے۔۔۔جمیل ابھی بھی ضد پہ تھا۔۔۔۔۔ وہ نہیں آے گی اور میں اسے آنے بھی نہیں دونگا۔۔۔۔روحان کسی دیوار کی طرح دروازے کے آگے کھڑا تھا۔۔۔۔ کیوں تجھے کیوں اتنا مسلہ ہے ہاں میری بھی کزن ہے۔۔۔تجھے کیوں اتنی فکر رہتی ہے۔۔۔۔کہیں راتوں کو تیری بہاؤں میں تو نہیں ہوتی۔۔۔۔۔جمیل نے سری حدیں پار کر دی تھی جمیل۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!روحان چیخا اور کس کے ایک تھپڑ جمیل کے منہ پہ لگایا تھپڑ اتنا شدید تھا جمیل زمین پہ گرا روحان بیٹھا جمیل کا کولر پکڑ قریب کیا اور ہلکی آواز میں غصہ بھرے لہجے میں کہا انابیہ کے بارے میں اگر تیری زبان سے ایک اور الفاظ بھی نکلا نا تو تیرا یہ دن آخری ہوگا۔۔۔۔اور تو پوچھا رہا تھا کے مجھے کیوں اسکی فکر سب سے زیادہ رہتی اور کیوں میں اسکا اتنا خیال رکھتا ہوں۔۔۔۔تو اپنے کان کے دونوں پردے کھول کر یہ بات سن لے۔۔۔۔وہ بچپن سے میرے یہاں یہاں رہتی ہے۔۔۔۔۔روحان نے اپنے دل پہ ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا۔۔۔۔۔۔۔ روحان اٹھا اور دروازے پہ دستک دی۔۔۔۔۔انابیہ دروازہ کھولو میں ہوں۔۔۔۔۔ بانو کو وہ انابیہ کے ساتھ چھوڑ کر آگیا تھا۔۔بانو نے دروازہ کھولا۔۔۔۔روحان نے بیڈ پہ ڈری روتی ہوئی انابیہ کو دیکھا انابیہ میں آگیا ہوں اب چپ ہو جاؤ۔۔۔۔روحان نے اسکے آنسوں صاف کرتے ہوۓ کہا مجھے یہاں سے لے چلیں روحان۔۔۔۔انابیہ نے روحان کا ہاتھ تھام کر کہا۔۔۔۔ ابھی جا رہے ہیں ہم میں اس دوزخ میں مزید نا تو رہے سکتا ہو اور نا تمھیں رہنے دے سکتا ہوں۔۔۔۔ بانو خان بابا کو بولائیں۔۔۔اور آپ بھی تیار ہو جائیں۔۔۔۔ہم ابھی نکال رہے ہیں۔۔۔۔ جی بڑے صاحب۔۔۔ابھی بولتی ہوں۔۔۔۔بانو کہہ کر باہر چلیں گئیں۔۔۔ واپس خان بابا کو ساتھ لے کر آی۔۔۔۔خان آپ دونوں میرے ساتھ کراچی جائیں گے اور آج سے وہیں رہیں گے۔۔۔۔۔اب یہ میرا اور انابیہ کا سامان گاڑی میں رکھیں۔۔۔۔ ٹھیک ہے بڑے صاحب۔۔۔۔۔ روحان انابیہ نے ہاتھ تھام کر باہر آیا۔۔۔۔۔تو تینوں باہر ہی کھڑے تھے۔۔۔ میں شروع سے کہہ رہی تھی لے اڑے گی یہ روحان کو اور دیکھ لیں وہی ہوا۔۔۔۔۔چچی نے اپنی زبان سے زہرہ اگلا۔۔۔۔ روحان آج تو بچ گئے تم لوگ لیکن جس دن مجھے موقع ملا اس دن میں چھوڑو گا نہیں جمیل نے دھمکی دی۔۔۔۔ روحان ان لوگوں کے منہ نہیں لگنا چاہتا تھا اسلئے خاموشی سے انابیہ کو لے کر چلا گیا۔۔۔۔۔


بیا جب سے گھر آئی تھی اسکا چہرہ اترا ہوا تھا۔۔۔۔۔وہ آکر سیدھا اپنے روم میں چلی گئی۔۔۔۔۔بانو خان بابا دونوں کو ہی لگا کے کچھ ہوا ہے۔۔۔۔رات ہوگئی تھی لیکن بیا ابھی تک نیچے نہیں آیی تھی۔۔۔۔ بانو کام کر رہی تھی کچن میں اور خان بابا بیٹھے کتاب پڑھ رہے تھے تبھی دروازے سے کوئی اندر آتا دکھائی دیا۔۔۔۔ آپ۔۔۔۔۔۔بانو اور خان بابا دونوں ہی سامنے موجود انسان کو دیکھ کر حیران ہوگے۔۔۔۔۔۔ آہستہ۔۔۔۔۔بیا کہاں ہے۔۔۔۔اس نے ادھر ادھر دیکھتے ہوۓ کہا وہ اپنے کمرے میں ہیں شام سے نیچے نہیں آئی موڈ ٹھیک نہیں ہے۔۔۔۔۔ کوئی بات نہیں خان بابا میں آگیا ہوں سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔۔آپ میرا سامان روم میں رکھیں میں آتا ہوں۔۔۔۔۔وہ کہہ کر اپر چلا گیا۔۔۔۔۔روم کا دروزہ لاک نہیں تھا۔۔۔وہ آہستہ آہستہ قدم بڑھتا اندر گیا۔۔۔۔۔دیکھا تو سامنے بیڈ پہ بیا منہ پہ تکیہ رکھے لیٹی ہوئی ہے بانو آپ کو کیا لگتا ہے آپ ایسے آیئں گی تو مجھے پتا نہیں چلے گا بیا جاگی ہوئی تھی اسے لگا شاید بانو ہے لیکن جب کوئی جواب نا آیا تو بیا نے پھر کہا۔۔۔۔۔بانو بولتی کیوں نہیں۔۔۔۔؟اس بار بھی جواب نہیں ملا تو بیا نے چہرہ سے تکیہ ہٹایا لیکن سامنے موجود انسان کو دیکھ کر خوشی سے اسکی چیخ نکال گئی۔۔۔۔۔ آپ۔۔۔۔۔۔۔۔بیا بیڈ سے اتری اور بھاگتے ہوۓ جا کر روحان کے گلہ لگی۔۔۔۔۔ ارے ارےآرام سے لڑکی۔۔۔۔گر جاؤنگا۔۔۔۔۔ کیا گر جاؤنگا پورے چھ مہینے پندرہ دن بعد آے ہیں آپ۔۔۔۔۔آپ ذرا یاد نہیں آئی میری۔۔۔بیا نے شکوہ کیا۔۔۔۔۔۔ ارے میری جان کام بہت زیادہ تھا تبھی۔۔۔۔۔ ہاں آپ کے کام ختم نہیں ہوتے۔۔۔۔اب آپ ایک مہینے سے پہلے نہیں جائیں گے۔۔۔۔۔بیا نے حکم دیا روحان نے اسکی آنکھوں دیکھا دل نے کہا بس چلے تو سری عمر کے لیا رک جاؤں سنا میں نے کیا کہا؟ ہاں نہیں جاؤنگا۔۔۔۔موڈ کیوں خراب تھا ہاں خان بابا نے بتایا۔۔۔۔۔ وہ آپ اتنے دنوں سے آے نہیں تھے تبھی۔۔۔۔۔ ارے۔۔۔۔میری جان اب آگیا ہوں۔۔۔۔فکر نہیں چلو اب نیچے مجھے بہت بھوک لگی ہے۔۔۔۔۔روحان کی وجہ سے بیا کا موڈ اچھا ہوگیا تھا۔۔۔۔


بیا یونیورسٹی میں بیٹھی ورقہ کا سوچ رہی تھی تبھی اسے کچھ یاد آیا اور بھاگتی ہوئی سیدھا پروفیسر کے روم میں گئی۔۔۔۔۔ ارے کیا ہوگیا بیا ایسے بھاگی بھاگی کیوں آرہی ہو۔۔۔۔بیا کے اچانک آنے سے پروفیسر چونک گئے۔۔۔۔ سر۔۔۔۔ہا۔۔۔۔سر۔۔۔وہ۔۔۔۔بیا بھاگتے بھاگتے آئی تھی تبھی اسکی سانسیں پھول رہیں تھی۔۔۔۔ بیٹھویہاں۔۔۔۔۔۔یہ لو پانی۔۔۔پروفیر نے اسے صوفے پہ بیٹھایا اور پانی دیا۔۔۔۔بیا نے ایک ہی سانس میں سارا پانی پی لیا اب بتاؤ۔۔۔۔۔؟ سر آپ کے سٹوڈنٹ ورقہ یاد ہے؟ ہاں یاد ہے کیوں کیا ہوا۔۔۔۔۔۔ سر وہ آپ کے سٹوڈنٹ تھے نا۔۔۔۔تو آپ مجھے انکے بارے میں بتا سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔ کچھ ہوا ہے کیا جو پوچھ رہی ہو۔۔۔۔ نہیں سر پلیز کچھ بھی پتا ہے تو بتا دیں۔۔۔۔۔۔ اچھا۔۔پوچھو۔۔۔۔۔؟ سر وہ اتنے سخت کیوں ہیں۔۔۔؟ سخت۔۔۔۔ہم۔۔۔۔وہ ایسا نہیں تھا وہ تو یونیورسٹی کا بہت اچھا سٹوڈنٹ تھا ہر وقت مسکراتا رہتا تھا۔۔۔۔۔۔سر نے پچھلے دنوں کو یاد کرتے ہوۓ کہا لیکن سر انکو دیکھ کر ایسا تو نہیں لگتا کے وہ کبھی ایسے ہونگے۔۔۔۔۔ بیا وہ ایسا تھا لیکن ایک بدقسمت حادثہ کی وجہ سے وہ بدل گیا سر کیسا حادثہ۔۔۔۔؟ مجھے زیادہ تو نہیں پتا لیکن اتنا پتا ہے کہ یونیورسٹی کی ہی لڑکی تھی مجھے نام تو نہیں یاد کیوں کے وہ اس ڈیپارٹ کی نہیں تھی۔۔۔۔۔۔ورقہ اور وہ دونوں ایک دوسرے کو بہت پسند کرتے تھے لیکن لڑکی کے گھر والوں کو پتا چل گیا تھا تو انہوں نے دونوں کو مروانا چاہا لیکن بدقسمتی سے وہ مر گئی اور ورقہ بچ گیا ۔۔۔۔۔۔ بیا کے دل میں کچھ شک پیدا ہو رہے تھے۔۔۔۔۔سر کیا وہ لڑکی سوات سے تھی۔۔۔۔؟بیا کی آنکھیں نم ہوگئیں تھی یہ نہیں پتا لیکن اتنا پتا ہے وہ کراچی سے نہیں تھی۔۔۔۔۔ بہت بہت شکریہ سر۔۔۔۔۔بیا کسی روبورٹ کی طرح چلتی ہوئی باہر چلی گئی۔۔۔۔۔۔۔ بیا۔۔۔۔ارے بیا۔۔۔۔۔سر بیا کو آواز دیتے رہے لیکن اسے کچھ سنائی ہی نہیں دے رہا تھا۔۔۔۔۔

   0
0 Comments